
پنجاب یونیورسٹی ٹاﺅن تھری میں مبینہ بے ضابطگیاں
Chief executive, Arshad mahmood Ghumman
حقیقت/ تحریر،ارشدمحمودگھمن)
بے حسی اور پستی کا حد سے گزرنا دیکھئے کہ اب اعلی تعلیمی ادارے بھی فراڈ اور جعل سازی سے بچ نہیں پائے۔جب ہائیر ایجوکیشن کے اداروں میں بھی مبینہ کرپشن عام ہو اور اس کے کیس ہائیکورٹوں میں سنے جا رہے ہوں تو پھر پیچھے باقی کیا بچتا ہے۔پاکستان کی مایہ ناز اور شہرہ آفاق جامعہ یعنی پنجاب یونیورسٹی کے ہاﺅسنگ منصوبے میں بھی کروڑوں کی نہیں اربوں کی دیہاڑیاں کھری کی گئی ہیں۔پروفیسر صاحبان چیخ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ دھوکہ کیا گیا،فراڈ اور نوسر بازی ہوئی لیکن ان کی شنوائی کو کہیں سنوائی نہ ہوئی۔آج کل قوم کے یہی اساتذہ عدالتوں کی راہداریوں میں رل رہے ہیں اور انصاف مانگتے ہیں۔پنجاب یونیورسٹی ٹاﺅن تھری میں مبینہ کرپشن کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میںایک کیس زیر سماعت ہے۔گزشتہ سے پیوستہ روز اس کیس کی جسٹس شاہد جمیل خان نے سماعت کی،عدالتی کاروائی دیکھ کر اور درخواستگزاروں کی روداد پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ مملکت خداداد پاکستان میں جسے چھت نصیب نہیں اس کا کوئی حال نہیں۔جن لوگوں کے پاس رہنے کے لئے اپنے گھر نہیں ہوتے پھر ان کا کوئی پرسان حال بھی نہیں ہوتا۔ایسے لوگ عمر بھر اپنی چھت کا خواب دیکھتے ہیں اور اپنی آنکھوں میں گھر کے سپنے سجائے قبر میں جا لیٹتے ہیں۔
2016 میں پنجاب یونیورسٹی ٹاﺅن تھری کا ایک منصوبہ شروع کیا گیا تھا کہ پروفیسروں اور دوسرے یونیورسٹی کے ملازموں کو گھر بنا کر دیئے جائیں گے۔سادہ لوح لوگوں نے اپنے گھر کا خواب پورا کرنے کے لئے یونیورسٹی کے اس ٹاﺅن میں اپنے گھر بک کرائے۔مذکورہ ہاﺅسنگ سوسائٹی کے منصوبے میں بااثر افراد نے اچھے خاصے پیسے بنالیے ،منیجمنٹ کمیٹی نے اسی ضمن میں کروڑوں نہیں اربوں روبے اکھٹے کئے ہیں۔دوران سماعت جسٹس شاہد جمیل خان نے بھی یہ ریمارکس دیئے کہ پرائیوٹ لوگوں کے ہاتھ میں اربوں روپے دے دیئے گئے۔اس کیس کی اینٹی کرپشن نے بھی انکوائری شروع کر دی ہے اور اظہر نعیم، ساجد رشید اور دیگر لوگوں کو اربوں روپے کی بے ضابطگی کے انکشافات سامنے آرہے ہیں ۔جن لوگوں نے بکنگ کے نام پر لاکھوں روپے جمع کرائے ہیں انہیں آج تک گھر نہیں ملا۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ ذمہ داران نے ملی بھگت کر کے منصوبے کی زمین ایک دوسری کمپنی کو دیدی ہے کہ وہ ترقیاتی کام کرائے گی۔عدالت نے بھی پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اس نے جامعہ کی زمین کسی نجی کمپنی کے نام کیسے کر دی۔اب عدالت عالیہ نے وائس چانسلر اور رجسٹرار کو طلب کر لیا ہے۔
مذکورہ منصوبے کی درست تفہیم اور صحیح صورتحال کے لئے عدالتی کاروائی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔اس سے قارئین کو بات کی تہہ تک سمجھنے میں مدد ملے گی۔چند دن قبل لاہورہائیکورٹ میں پنجاب یونیورسٹی ٹاﺅن تھری میں مبینہ کرپشن کی سماعت ہوئی،عدالت عالیہ نے استفسار کیا کہ جب پنجاب یونیورسٹی کی سرپرستی میں ٹاﺅن شروع ہوا ہے تو یونیورسٹی بعد میں کیسے دستبردار ہو سکتی ہے،پروفیسر صاحبان سے اربوں روپے لئے گئے،پرائیوٹ لوگوں کے ہاتھ میں اربوں روپے ہیں، رجسٹرار جامعہ پنجاب نے یونیورسٹی کی ملکیتی اراضی کس حیثیت سے پرائیویٹ افراد کے نام پر منتقل کر دی۔عدالت عالیہ نے پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار، وائس چانسلر و دیگر سے جواب طلب کر لیا ہے۔درخواستگزار اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر خرم شہزاد نے عدالت میں موقف اختیار کیا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کی سرپرستی میں ٹاون تھری 2016 میں شروع ہوا،یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین نے پنجاب یونیورسٹی کے نام پر اعتماد کر کے پلاٹ خریدے،مینجمنٹ کمیٹی6سال بعد بھی ترقیاتی کام شروع نہ کر سکی،ڈاکٹر ساجد رشید، اظہر نعیم، محبوب حسین اور دیگر نے ممبران کے اربوں روپے ذاتی اثاثے بڑھانے کے لئے استعمال کئے ہیں،محکمہ اینٹی کرپشن نے اظہر نعیم، ساجد رشید و دیگر کو اربوں روپے کی بے ضابطگی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، ڈاکٹر اظہر نعیم نے اپنے فرنٹ مین کو ڈویلپر بنایا جس کے پاس کوئی تجربہ نہیں تھا،اب یہ ترقیاتی کام شروع کرنے کی بجائے زمین نجی ہاﺅسنگ سوسائٹی کو بیچ رہے ہیں،جامعہ ٹاون کی زمین کو تا حال ایل ڈی اے نے این او سی بھی جاری نہیں کیا ،ڈاکٹر اظہر نعیم نے ایل ڈی اے کے افسران کی مبینہ ملی بھگت سےمنظوری کے جعلی لیٹر ممبران کو دیئے ،نجی ہاﺅسنگ سکیم اور ڈویلپر کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچایا گیا،ملزمان نے اربوں روپے کا فراڈ کیا اور ذاتی اثاثے بنائے ہیں،وقت پر پلاٹ ڈویلپ نہ کرنے سے پلاٹ مالکان کا بہت نقصان ہوا ہے۔
لیجئے صاحب یہ قصہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے نام پر بھی فراڈ اور جعل سازی جاری ہے۔حیرت ہے کہ صوبائی و وفاقی وزارت تعلیم اس ضمن میں کیوں خاموش تماشائی بنی رہی اور متاثرین کو عدالت کی چوکھٹ پر جانا پڑا۔ وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین کو چاہیئے کہ وہ خود اس مالی بدعنوانی کا نوٹس لیں اور اعلی سطحی انکوائری کرائیں۔جو لوگ اس مالی بدعنوانی میں ملوث ہیں ان کے خلاف سخت اور تادیبی کاروائی کریں تاکہ متاثرین کو ان کا حق مل سکے۔اگر وزارت تعلیم اس منصوبے میں کرپشن کا بروقت نوٹس لیتی تو کم ازکم پنجاب یونیورسٹی کے ملازمین کو اس طرح خوار نہ ہونا پڑتا۔امید کرنی چاہئے کہ اب ذمہ داران اپنا فرض منصبی ادا کریں گے اور لٹے پٹے لوگوں کی اشک شوئی کا ساماں اور امکاں کیا جائے گا۔اگر ایسا نہ ہوا تو لاہور ہائیکورٹ میں تو یہ کیس زیر سماعت ہے ہی اور وہاں تو دودھ کا دوھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔کہا جاتا ہے کہ نا امید اور مایوس لوگوں کی آخری جائے پناہ عدالتیں ہی ہوا کرتی ہیں۔عدالتیں وہ جگہ ہوتی ہیں جہاں شاہ وگدا،پیرو جواں اور کمزور و زور آور سب کے سب برابر ہوتے ہیں۔